محصور ہو چکا ہوں میں اپنے خیال میں
کتنے جواب قید ہیں بس اک سوال میں
جس کو میں دیکھ پاؤں اسی کا مجھے یقیں
میں کس کو دیکھتا ہوں گلوں کے جمال میں
اب بھی ہوا نہ ختم مرے ہجر کا سفر
اپنی تلاش میں ہوں میں تیرے وصال میں
توبہ تو کر چکا ہوں گناہوں سے بار بار
شامل ہیں نیکیاں بھی تو میرے اعمال میں
ویراں شجر کو کوئی رجا ہو بہار کی
ملتا ہے دن کو نور بھی شب کے زوال میں
زاہد خرد کی بات چلے اس جنوں میں
رندان فکر مست ہیں اپنے ہی حال میں