ایک سچی کہانی کو میں کیسے بھول سکتی ہوں
اپنی زندگانی کو میں کیسے بھول سکتی ہوں
میرا بچپن مجھے اچھی طرح سے یاد ہے جبکہ
تو پھر اپنی جوانی کو میں کیسے بھول سکتی ہوں
کہ جن گلیوں میں گِرتے پڑتے چلنا دوڑنا سیکھا
انہی گلیوں سہانی کو میں کیسے بھول سکتی ہوں
نئے رشتے ، نئے ساتھی سبھی تو یاد ہیں مجھ کو
سکھی اپنی پرانی کو میں کیسے بھول سکتی ہوں
بہت چاہت سے پہلی بار جو تم نے عنایت کی
ہماری اس نشانی کو میں کیسے بھول سکتی ہوں
وہ جس کی ایک نظر نے تمہیں مجھ سے چرا لیا
تمہاری اس دیوانی کو میں کیسے بھول سکتی ہوں
کِسی کے ہجر میں عظمٰی جو پہلی بار چھلکا تھا
میری آنکھوں کے پانی کو میں کیسے بھول سکتی ہوں