میں اک لاکھ دنوں کی بوڑھی
تو بن ماں کے بچہ ہے
میرا گھر رستوں کی دھول
تیرا گھر بھی کچا ہے
تو کہ مچلے تو تن پر اک ظلم کرے
میں کہ چاہوں تو تن پہ اک زخم سہوں
تو آنکھوں میں آنسو دریا لے آیا
میں نے پیار میں سکھ پایا نہ دُکھ پایا
میری سب قوسوں پہ مان تو کرتا
میرا دل کیا روز ہی جیتا مرتا ہے
پھر بھی تیرے اندر اک احساس نگر
اور میں جنموں سے بچے سنگلاخ بڑی
تیری ہر اک چاہ اگرچہ فطری ہے
میں فطرت سے کوسوں دور کھڑی بچے
میں کہ ہر اک فعل میں ادنیٰ ہوں سن لے
تو کہ تیرا ہر اک کام ہی اچھا ہے
میں جنموں سے جھوٹی اور تو سچا ہے