میں ہوش میں ہوں مری اس سے گفتگو بھی نہیں
قرار کیسے ہو مجھ کو وہ روبرو بھی نہیں
فضا میں پیاسے پرندوں کی ہے بقا مشکل
سفر ہے دور کا رستے میں آب جو بھی نہیں
یہ دل میں شوق ملاقات ہے کہ حسرت ہے
وہ دور بھی ہے مری اس کو آرزو بھی نہیں
یہ کس ویرانے میں آ کر بسیرا کر ڈالا
رفیق ڈھونڈیے کیا اس جگہ عدو بھی نہیں
یہ گفتگو میں تفاخر ، یہ خود نمائی تری
چراغ میں ہوں اگر آفتاب تو بھی نہیں
نہ ہو سکے گا عیاں تم پہ میرا حال کبھی
لبوں پہ آہ نہیں آنکھ میں آنسو بھی نہیں
نہ اعتراف ہنر کی کسی سے امیدیں
نمایاں خود کو جہاں میں کریں یہ خو بھی نہیں
چھپے خزانوں کا ملتا سراغ کیسے بھلا
خبر بھی پائی نہیں ان کی جستجو بھی نہیں
خمار کے لیے ترسے ہیں آج ہم زاہد
نہ مست آنکھیں ہیں ساقی کی اور سبو بھی نہپیں