مے کشی کا لطف تنہائی میں کیا، کچھ بھی نہیں
یار پہلو میں نہ ہو جب تک، مزہ کچھ بھی نہیں
تم رہو پہلو میں میرے، میں تمہیں دیکھا کروں
حسرتِ دل اے صنم! اس کے سوا کچھ بھی نہیں
حضرتِ دل کی بدولت میری رسوائی ہوئی
اس کا شکوہ آپ سے اے دلربا!! کچھ بھی نہیں
قسمتِ بد دیکھئے، پوچھا جو اس نے حالِ دل
باندھ کے ہاتھوں کو میں نے کہہ دیا"کچھ بھی نہیں"
آپ ہی تو چھیڑ کر پوچھا ہمارا حالِ دل
بولے پھر منہ پھیر کر “ہم نے سنا کچھ بھی نہیں”
کوچۂ الفت میں انساں دیکھ کر رکھے قدم
ابتدا اچھی ہے اس کی، انتہا کچھ بھی نہیں