آنے والی نسلوں کو نئے انداز بخش دئیے
دل کی گہرائیوں میں چھپے راز بخش دئیے
زندہ لوگوں کو ہمیشہ ملتی ہیں ذلتیں
مرنے کے بعد نام کو اعزاز بخش دئیے
ہم بھی بدل ڈالیں گے اس رواج کو
مردہ دلوں کو ہم نے یہ احساس بخش دئیے
گرنے ناں پائے کوئی بھی میدان جنگ میں
ہر کربلا کو ہم نے شہسوار بخش دئیے
وقت کے آسمانوں کا جو بن جائیں گے ستون
ہم نے ان طوفانوں کو شاہکار بخش دئیے
نکالیں گے جو سمندر کی تہوں سے خزانے
کشتیوں کے ناخداؤں کو بادبان بخش دئیے