اتارے آنچل سر سے اپنے نئے چلن دکھا دئیے
چھوڑا ہاتھ سے اخلاق کا دامن نئے انداز سکھا دئیے
دوسروں کی پیروی میں اپنا سب کچھ لٹا دیا
بگڑی صورتوں کے پیرھن نے سارے راز چھپا دئیے
مغربی تہزیب کے مکروہ اس کاروبار میں
بکھرے ہوئے اس معاشرے نے سارے رستے بھلا دئیے
نئی روش میں زنگ آلودہ ہو گئے سارے سلسلے
رنگ و طرب کی محفلوں میں اپنے لباس جلا دئیے
بھول کر بھی نہیں شرمندہ اپنے اس کردار پے
شرم و حیا کا کر کے خون سارے نشاں مٹا دئیے
ایسی ذلت اور ننگی شہرت بن گئی انکا نصیب
اپنے ہاتھوں سے اپنے جسم راکھ میں دفنا دئیے
کب ملے گی پھر رہائی اس آگ کے حصار سے
بھول کر اپنے خدا کو سب نے ضمیر سلا دئیے