نازاں ہیں وہ کہ شَاہ کے ، دربار سے نہیں اُترے
ہمیں بھی فخر ہے کہ اپنے ، معیار سے نہیں اُترے
دوستوں نے ساتھ رہ کر کی تھیں سَازشیں
یونہی تو ہم نگاہِ ، یار سے نہیں اُترے
عشق وہ زہرِ قاتل ہے جس کے گھونٹ
جگر میں کبھی بھی ، قرار سے نہیں اُترے
وہ وادی خاکستر ہو چلی مگر حمایت کے اشتہار
اب تلک میرے شہر کی ، دیوار سے نہیں اُترے
جو کہتے تھے بغاوت ہو ، تو اقتدار چھوڑ دوں
وہ سرکار ابھی تک تو ، سرکار سے نہیں اُترے
اخلاق مسندِ شاہی میں وہ حَلاوت وہ نَشہ ہے
جو براجمان ہوۓ اس پر ، پیار سے نہیں اُترے