قدیم چاہتوں کے دار بند ہو گئے
سارے رواج و رِیت کے پابند ہو گئے
لفظوں میں رِیا اِس قدر چھلکنے لگی
سب لہجے ایک دوسرے پہ تند ہو گئے
خواہش و تکمیل کا ایسا بُرا مِلاپ
مُسلِم منافقوں سے رضامند ہو گئے
نہ بات میں حقیقت نہ طرزِ حق گوئی
کہنے کو میرے لوگ عقلمند ہوگئے
کیوں بھول گئے داستانِ عاد اور ثمود
کیسے نہ ڈوبتے وہ بے کمند ہو گئے
بزمِ شباب و رقص پسند دیدگی بنی
احکام شریعت کے نا پسند ہو گئے
سیکھے گا کون، کون سِکھائے گا دینوی
جیسے تھے باپ ویسے ہی فرزند ہوگئے
نالے تیرے گِراں ہوئے تا وقتِ مقرر
بے سود گوہر آپ مُستمند ہو گئے