نام ور ہیں نہ کوئی شہرتِ فن رکھتے ہیں
ہم فقط حرمتِ دستارِ سخن رکھتے ہیں
چاہے کاغذ پہ ہو بنیاد کہ خوابوں پہ اساس
ہرجگہ شہر بسانے کی لگن رکھتے ہیں
گل فروشی نہیں کرتے کہ نگہبان ہیں ہم
منصب پرسشِ احوالِ چمن رکھتے ہیں
اور کچھ خاص نہیں اپنی اداسی کا سبب
شہر میں رہتے ہیں ہم ، روح میں بن رکھتے ہیں
کوئی حکمت نہ مہارت نہ سلیقہ نہ ہنر
اک ذرا شعر میں بے ساختہ پن رکھتے ہیں
جن کا مسلک نہ ادب ہے نہ محبت ساجد
ان سے ہم کم ہی ذرا ربط سخن رکھتے ہیں