دل بھاری رہا آنکھ نم رہی
اسطرح زندگی نام غم رہی
گزری تو بڑی چکاچوندھ یہ
پر روشنی کی عمر کم رہی
کچھ پہلو ادھیڑے، اس کے
خاص طور پےجہاں ضم رہی
کرچی کرچی کرکے رکھ دیا
مجھ سے بہتر میری قلم رہی
خوب گل بانٹے اوروں میں پر
دریچے میں چھم چھم رہی
بدھو بناتا آیا سب کو حازق
سانس تیری ہمیشہ تھم رہی