زمانہ چال قیامت کی چل گیا ہو گا
نجانے وقت بھی کتنا بدل گیا ہوگا
رہے گا آ کے تغیر ، اصول قدرت ہے
کوئی گرے گا تو کوئی سنبھل گیا ہو گا
یوں اپنے حسن پہ نازاں ہیں ،کچھ خبر ہی نہیں
ڈھلے گی جیسے جوانی یہ ڈھل گیا ہو گا
یہ دیکھنا مرا دشمن بھی دوست ہو گا مرا
مرے سلوک سے پتھر پگھل گیا ہو گا
مجاہدوں سی جو تم زیست کر رہے ہو بسر
جہاں کا خوف تو دل سے نکل گیا ہو گا
سکون آج بہت ہے اداس دل کو مرے
تمھارے آنے سے شاید بہل گیا ہو گا
خفا نہ ہو مری محبوب دل ہے دیوانہ
قریب پا کے تمھیں کچھ مچل گیا ہو گا
اٹھا کے فرش سے موتی کو چوم لو زاہد
غزال چشم کا آنسو نکل گیا ہو گا