یہ دور غربت مٹے گا کب تک
چراغ زندگی جلے گا کب تک
وہ بچہ جو بے سہارا پل رھا ھے
وہ اپنے پاؤں پہ چلے گا کب تک
ظم کی چکی میں وہ پستا گھرانہ
زمانے سے تنہا لڑے گا کب تک
وہ جو اپنی جان جوکھوں میں ڈالتا ھے
وہ مزدور اس بٹھی میں جلے گا کب تک
دکھ درد کے مارے ھوئے غسرت زدہ لوگ
ان سے غم کا یہ پہاڑ ھٹے گا کب تک
دل والو کیوں دولت سے پیار کرتے ھو
کرپشن کا پیسہ خوشی دے گا کب تک
تڑپتے لوگوں کے لیئے نشاط اک خواب سہی
بہار زیست میں انکی یہ پھول کھلے گا کب تک
وہ ظالم جاگیردارجو انکے جزبات سے کھیل چکا
اس غریب کو روٹی کپڑا اور مکان ملے گا کب تک
حسن گوکہ ھوس کے پجاری کا ضمیر مردہ ھے
وہ غریبوں کو تعلیم سے محروم رکھے گا کب تک