کسی سے اب کوئی گلہ ہی نہیں
کیوں کہ اپنا کوئی رہا ہی نہیں
ملنا تو چاہیے تھا دوبارہ
تو یوں بچھڑا کہ پھر ملا ہی نہیں
نسبتِ بنتِ حوا تھی ورنہ
مجھ سا کوئی درندہ تھا ہی نہیں
میرا کوئی پتہ کرو کہ مرا
کسی کو آج تک پتہ ہی نہیں
آئینہ میں ہوں یا میں آئینہ ہوں
میں نہیں ہوں یا آئینہ ہی نہیں
خاک تم دل جلانے والے ہو
کہ مرا تم سے دل جلا ہی نہیں
تم سے کیسے ملوں کہ میں تو کبھی
خود کو بھی بھول سے ملا ہی نہیں
ایک ہی حادثہ ہے یعنی تو
اور وہ بھی ہم سے بھولتا ہی نہیں