میری نظر سے جو ٹکرا گیا وہ کس کا سایا تھا
کہیں وہ تم تو نہیں جس نے میرا دل کھلایا تھا
تنہائی کے لمحوں میں جو ساتھ رہا ہے
شب تنہائی میں بھی اس نے دل بہلایا تھا
اپنی آنکھوں کو خواب دینے کی تمنا میں
اس دل میں تیرا خیال ہم نے ہی بسایا تھا
باغ دل کو بہاروں سے سجانے کے لئے
باغ دل میں گلاب کا پودا ہم نے لگایا تھا
کھل گئے گل تو سارے پھولوں سے
تیرے ہر راستے کو ہم نے سجایا تھا
ان دیکھی راہوں میں جو کئی بار ملا ہے
وہ کوئی اجنبی نہیں میرا اپنا ہی سایا تھا
عظمٰی تمہارے سامنے کی بات ہے اک دن
دل و جاں ہار کے اک شخص کو اپنا بنایا تھا