دنیا والے نفرتوں کے تیر مارے جاتے ہیں
جواب میں ہم پیارپیار پکارے جاتے ہیں
جو لوگ اٹھاتے ہیں میرے خلاف آوازیں
وہی لوگ میری شخصیت سنوارے جاتے ہیں
ہم جن کہ پہلو میں اپنا دل ہار بیٹھے
وہی بار بار ہمیں للکارے جاتے ہیں
میرا سفینہ جب ساحل کے قریب ہوتا ہے
گرداب میں ہوتی ہے ناؤ یا ڈوب کنارے جاتے ہیں
اب کوئی نہیں آتا اصغر کی غزلیں سننے
اپنے سبھی دوستوں کو پکارے جاتے ہیں