نقال چہروں کے نقش اپنے
بشاش دلوں کے نفس اپنے
میں خود کو آزاد کیسے سمجھوں
جال بن گئے ہیں قفس اپنے
وہاں آنکھوں میں بزم بہت ہے
یہاں تنہائیوں کے اُنس اپنے
وفا کروگے تو بھی جفا ہوگی
محبتوں کے رہے ہیں جنس اپنے
چلو کوؤں سے کرتب سیکھ لیں
نظر نہیں آتے ہنس اپنے
نیند نے پھر لگن کو نہ دیکھا
خواب پہ پہروں کے رقص اپنے
۔۔۔*۔۔۔*۔۔۔*۔۔