نمی میں ڈوب کے ٹھنڈی ہوَائیں آئی تو ہیں
برس بھی جائیں گی آخر، گھٹائیں چھائی تو ہیں
خدا کا شکر، دُھواں چھوڑتی ہوُئی شمعیں
کسی خیال کے آتے ہی جگمگائی تو ہیں
لہو کے ساتھ شرارے جھڑیں تو بات بنے
بجا کی آپ نے چوٹیں دلوں پہ کھائی تو ہیں
یہیں سے رنگِ رُخِ روزگار بدلے گا
کتھائیں دل کی بالآخر لبوں تک آئی تو ہیں
اب اس کے بعد مجھے فکر کیا کہ ہو گا کیا
وہ آنکھیں آج میرے غم پہ ڈبڈبائی تو ہیں