ہے گنگا جل کا کھیل رچا کب دُھوپ نہیں برسات نہیں
جب ہجر کا چرخہ کات چُکے کیوں وصل کے امکانات نہیں
ہم ننگیء داماں دیکھ چکے ہم تنگیء دوراں دیکھ چُکے
بے خوف و خطر اب جیتے ہیں‘ گو جینے کے حالات نہیں
وہ صبح جو آنے والی ہے‘ وہ صبح بلآخر آئے گی
یہ رات جو ہم پر چھائی ہے یہ رات تو کوئی رات نہیں
وہ شاخ بدن ہر وقت کبھی پھولوں سے لدی جو رہتی تھی
وہ شاخ بدن یوں اُجڑی کہ اک بھی تو سلامت پات نہیں
اک عمر سے کیوں کر لگتا ہے وہ شخص ہے میرے ساتھ کہ جو
اک عمر سے مجھ کو چھوڑ گیا اک عمر سے میرے ساتھ نہیں
کچھ تمہی بتاؤ اے لوگو! اس شہر میں کیا؟ سچ بات کہیں ؟
جہاں جھوٹ کا حاکم حاکم ہے‘ جہاں کچھ پاس جزبات نہیں
ہر صحن انوکھا ماتم ہے ہر آنکھ تماشے سے نم ہے
یہ لوگ یونہی مر جائیں گے گر بدلے کچھ حالات نہیں
یہ جسم سہی بے مول سجن یہ جان تو ہے انمول سجن
جب شام نہیں ہے ساتھ تو پھر تیری بھی کوئی اوقات نہیں