کسی معصوم کسی شیر خوار روح کے لئے
کسی ہنستے ہوئے مسکاتے ہوئے کل کے لئے
یہ زمیں جہد مسلسل کی داستاں کی امیں
ایک احساس مامتا کے لئے سینے میں
قطرے قطرے کی شکل زندگی پلاتی رہی
زندگی جو کہ ہوا بھی ہے اور سمندر بھی
زندگی اپنی بقا کے لئے ہے دھڑکن بھی
ہے کہیں ساز اور اور کہیں آ واز
گیت رم جھم کا سناتے ہوئے یہ ابر کرم
گوہر آب لٹاتی ہوئی ساون کی گھٹا
چاند کی اجلی قبا صبح کی شفاف کرن
بہتے دریاؤں ابلتے ہوئے چشموں کی زمیں
لہلہاتے ہوئے آنچل یہ میری دھرتی کے
شام کے چہرے پہ لالی یہ کسی دلہن کی
یہ ہیں ابواب کتاب حیات فطرت کے
جنکے ہر ورق پہ ہے داستان وقت رقم
کسی خاموش تغیر و ارتقا کا بیاں
کسی عظیم مصور کی انگلیوں کی زباں
جو کینوس پہ لکیروں کی شکل ڈھلتی رہی
جو کائنات کے پردے پہ نقش ہوتی رہی
یہ ٹھیک ہے کہ زمانے کے ہر تغیر میں
فنا کے ساتھ نئی اک حیاٹ ہوتی ہے
کہ کائنات کے پردے پہ کچھ نئی اشکال
عدم سے پاکے رہائی وجود پاتی رہیں
مگر یہ کیا ہوا کہ عرصہ دراز سے اب
اس کارخانہ ہستی میں چہار سو ہے دھواں
کہ کائنات کے پردے کی چاندنی ہے دھواں
میری زمیں کے سینے کی دھڑکنیں ہیں دھواں
میرے ہم وطنوں کبھی تم نے سوچا ہوگا
خاک نشیں ہو کے بھی بارود کے زرے ہونگے
میری خوراک ، غذا ہو گی میرے بچوں کی
زہر آلودہ میرے دیس کی ہوائیں ہونگی
چشم نمناک لئے خونی فضائیں ہو نگی
آؤ دیکھو کہ ہوئے جاتے ہیں ریزہ ریز
میرے صحرا میرے کوہسار شدت غم سے
اپنے ہاتھوں سے ہوئے جاتے ہیں یہ حشر بپا
پھر ہوئے جاتے ہیں دھرتی کے جگر کے ٹکڑے
پھر زباں خشک ہوئی جاتی ہے دریاؤں کی
پھر ابلنے لگا چشموں سے لہو دھرتی کا
پھر نمودار ہوئے بارود کے بیو پاری
امن کے نام پہ قابض ہوئے ایوانوں میں
زمیں کی لاش کو ٹکڑوں میں بانٹنے والے
بنے امن و صلاح جوئی کے قصیدہ خواں
یہ کون ہیں جو زمیں کا کلیجہ نوچتے ہیں
یہ کون ہیں جو امن کا سنگھار لوٹتے ہیں
زمیں کی زلف، لب و رخسار نوچنے والے
یہ کون ہیں جو بھرم آدمی کا توڑتے ہیں
یہ کینوس پہ سیاہی بکھیرنے والے
نگارخانوں کی رونق اجاڑنے وا لے
میں سخنور نیں شاعر نہیں منصف بھی نہیں
میرا لکھا ہوا کچھ ایسا معتبر بھی نہیں
اے میرے دیس کے لوگوں یہ نہیں میری کتھا
یہ ہے نوحہ دھرتی کے جگر پاروں کا