تو نور علی ا نور تو نور ہی نور تو نور ہی نور
جلوہ دیکھوں تیرا وہ بینائ کہاں سے لاؤں ؟
ڈھونڈوں میں تجھ کو گر مل بھی جاۓ تو
نگاہوں میں اپنی میں وہ تاب کہاں سے لاؤں؟
تیرے رو برو میں قدموں پے اپنے
میں خود میں وہ دم کہاں سے لاؤں؟
خاک ہو جاؤں جل کر میں راکھ ہو جاؤں
اب تو ہی بتا میں وہ تاب کہاں سےلاؤں؟
تیرا کُن فیَکُن میں مٹی کا ڈھیر ہو جاؤں
پھر اپنی میں وہ جان کہاں سے لاؤں؟
نہ خاک میری نہ آب میرا نہ یہ تاب میری
پھر تو ہی بتا میں وہ خاک کہاں سے لاؤں؟
گستاخی پے جھکا یہ سر ندامت سے میرا
اب سر اٹھانے کی میں وہ تاب کہاں سے لاؤں؟