نہ ادھر کی ٹھوکریں ہوں نہ اُدھر کی ٹھوکریں
ہم کو تو منظور ہیں بس تیرے در کی ٹھوکریں
دربدر کی ٹھوکریں کھائی ہیں جب سے قیؔس نے
تب سے اُلفت کھا رہی ہے دربدر کی ٹھوکریں
ذہن مُتلاشی رہے اور سوچ جب ڈھونڈے خیال
سَر ہوا پٹخائے اور کھائے گھر کی ٹھوکریں
سوبہانے،سورویے،سوحوالے،سوحساب
اِک سوال پر ہیں کیوں اگر مگر کی ٹھوکریں
جب سے تیرے شہر سے لوٹے ہیں تُجھ کو دیکھ کر
تب سے ہی ہم کھا رہے ہیں اُس نگر کی ٹھوکریں
عشق کے دربار سے ملتی نہیں یہ خیر مُفت
یہ خیر دائم مانگتی ہے در سے سر کی ٹھوکریں