بحر کی موجوں میں سرگرداں کدھر جاوٴں
تندی ِ باد ہے رواں اب جدھر جاوٴں
قطرہ پانی ہوں یاری ہے بحر معیط سے
اتنا حقیر نہیں کہ سمندر میں اتر جاوٴں
پہنچا نہیں کسی پیاسے کے لبوں تک
کہتی ہے ہوا بادلوں میں بکھر جاوٴں
مٹی ہوں بہہ سکتا ہوں پانیوں میں
خاکی مرے عناصر ہیں کیونکر سنور جا وٴں
نہ ہوگی ختم یہ آوارگی اُسے پانے تک
خالی ہاتھ کس طرح میں گھر جاوٴں