نہ شب کا کچھ پتہ چلے نہ دن کی کچھ خبر لگے
میں اس نگر میں ہوں جہاں محافظوں سے ڈر لگے
خدا ترے ملنگ ہیں یہ مست لوگ تنگ ہیں
یہاں پہ کچھ سکون ہو تو گھر بھی اپنا گھر لگے
تبھی تو ہم کو سازشوں نے سر کے بل گرا دیا
ہمی تھے بے وقوف جو کسی کی آس پر لگے
میں ہجر کے دیار میں بھٹک بھٹک کے تھک گیا
یہی کہیں تھیں منزلیں یہی کہیں تھے در لگے
مجھے بھی اس کے عشق پر ہو مان عمر بھر علی
میں اس کا صرف اس کا ہوں اسے بھی عمر بھر لگے