نہ طوفانوں سے گھبراؤں گا نہ مانگوں گا سا حل کو
چلا ہوں دور تیرے شہرسے انجان منزل کو
کسی لمحے جو تیری یاد نے مجبور کر ڈالا
تو شاید لوٹ کے آنا پڑے گا تیری محفل کو
مری چپ سے نہ سمجھو غم نہیں اس کی جفاؤں کا
گلہ کرنا نہیں آتا مرے ٹوٹے ہوئے دل کو
ہر اک کاوش رہی بیکار ناکامی ہی حاصل تھی
اگرچہ پار کر بیٹھا تھا میں سارے مراحل کو
تمھاری بات نہ سمجھا ہے کوئ طرز یہ چھوڑو
سمجھ آتی نہیں منطق سے ضدی اور جاہل کو
نہیں ملتا مجھے انصاف جب زاہد زمانے سے
تو ایسے میں بہت ہی یاد کرتا ہوں میں عادل“ کو