نہ علاج اس کا نہ کوٸی ، دواٸی
کرونا ہے یارو وہ مرضِ ، وباٸی
ستمِ جہاں دیکھ کر ہوتا ہے گماں یہ
ناراضگی خدا کی زمیں پر اُتر ، أٸی
کہیں عصمت دری تھی کہیں لاشیں پڑی تھیں
چشمِ غیور پھر بھی نہ کوٸی ، شرماٸی
جُنٗبشِ اَنگُشت سے پیوستہ عالمِ بے حیاٸی
اتنی أسان تو کبھی نہ تھی ، براٸی
دِلوں میں کَجی تو پہلے ہی تھی پِنہاں
اب تو ہاتھ ملانے سے بھی گۓ ، بھاٸی
کیا حق ارضِ خُدا کو میلا کریں ہم
کیسے ممکن تھا جوش میں نہ أتی ، خداٸی
”اخلاق“ کرونا سے بچنے کی یہی سبیل ہے اب
سب مل کر اپناٸیں ہم اس کے دَر کی ، گداٸی