دسمبر کی بھیگی رات مے ایک ننھی سی جان
پیپل کے سائے مے بیٹھی تھی
تھی چارو طرف رات کی تنہائی
اک یہ تھی کہ اسے نیند نہ آئی
کپڑے بھیگے اسکے کانپ رہی تھی
اک معصوم کلی مرے سامنے مر جھا رہی تھی
مجھے چین نہ آیا جا پہنچا اس کے پاس مے
لے آیا اسے اپنے گھر ساتھ مے
اسے بڑے ادب سے بٹھایا مے نے
جلدی سے چولا جلایا مے نے
پھر نہ ویسے کبھی بارش ہوئی
نہ مے جاگا نہ وہ آئی
نہ بانٹی کسی نے بھی یہ تنہائی
نہ مے نے دروازہ کھولا
نہ کوئی دستک آئی