نہ پوچھ ہم سے کہ اس گھر میں کیا ہمارا ہے
اسی میں خوش ہیں کہ حسنِ فضا ہمارا ہے
الگ مزاج ہے اپنا تمام لوگوں سے
تمام قصوں میں قصہ جدا ہمارا ہے
کسی بھی خشت پہ ہر چند حق نہیں رکھتے
مگر یہ شہر بفضلِ خدا ہمارا ہے
ہماری شہرتوں ، رسوائیوں کے کیا کہنے
کہ سنگ راہ بھی نام آشنا ہمارا ہے
جلاتے پھرتے ہیں ہم کاغذی گھروں میں چراغ
رہے یہ ڈھنگ ، تو حافظ خدا ہمارا ہے
دلوں کے قرے بیگانگی میں رہتے ہیں
سو ، دوستو یہی تازہ پتہ ہمارا ہے
ہمیں یہ آخری خوش فہمیاں نہ لے ڈوبیں
کہ سیل آب شریک نوا ہمارا ہے
بہت ہے شور مگر اطمینان بھی کر یہاں
کوئی تو ہے جو سخن آشنا ہمارا ہے