نہ ہو کردار تو تحریر میں تقریر میں کیا ہے
نہ ہو اخلاص گر دل میں تو پھر تشہیر میں کیا ہے
بتا مجھ کو کمندیں چاند پر او ڈالنے والے
بھلا خود کو بھلا کر یوں عبث تعمیر میں کیا ہے
اگر انساں بدل جائے تو پھر تقدیر بھی بدلے
غلط ہے سوچنا ایسا مری تقدیر میں کیا ہے
منور کر دیا دنیا کو جب سے ایک امی نے
کسی خورشید میں کیا ہے کسی تنویر میں کیا ہے
بنا ہوں خاک سے میں اس لئے مشہور ہوں خاکی
یہ خوابِ زندگی ہے خواب کی تعبیر میں کیا ہے