نہ ہو کردار تو تحریر میں تقریر میں کیا ہے
Poet: محمد فہیم الدین نادر عمری By: محمد فہیم الدین نادر عمری, GULBARGAنہ ہو کردار تو تحریر میں تقریر میں کیا ہے
نہ ہو اخلاص گر دل میں تو پھر تشہیر میں کیا ہے
بتا مجھ کو کمندیں چاند پر او ڈالنے والے
بھلا خود کو بھلا کر یوں عبث تعمیر میں کیا ہے
اگر انساں بدل جائے تو پھر تقدیر بھی بدلے
غلط ہے سوچنا ایسا مری تقدیر میں کیا ہے
منور کر دیا دنیا کو جب سے ایک امی نے
کسی خورشید میں کیا ہے کسی تنویر میں کیا ہے
بنا ہوں خاک سے میں اس لئے مشہور ہوں خاکی
یہ خوابِ زندگی ہے خواب کی تعبیر میں کیا ہے
More General Poetry






