جینے کا سہارا تھا سہارا نہیں رہا
اک شخص ہمارا تھا ہمارا نہیں رہا
اک آس کا دھارا تھا وہ دھارا نہیں رہا
جینے کا یہاں کوئی بھی چارا نہیں رہا
کہنے کو تو زندہ رہے پر جی نہیں پائے
یوں جینا تو کیا مرنا گوارہ نہیں رہا
اس شہر خونفشاں میں نہیں کوئی آسرا
رنج و الم کا اب کوئی چارہ نہیں رہا
دکھ درد کا جہاں میں کوئی تو علاج ہو
کس سے کہیں کوئی بھی ہمارا نہیں رہا
وہ اپنی لکیروں میں ہمیں پا نہ سکیں گے
اپنا تو مقدر بھی ہمارا نہیں رہا
کیونکر وہ ڈوبتے کے لئے آسرا بنے
جس کے لئے تنکے کا سہارا نہیں رہا
تا عمر کوئی کہکشاں کا ہمسفر رہے
اور کسی کو ایک بھی تارا نہیں رہا