نہیں ہے راج کی خواہش سکندروں کی طرح
Poet: مرید باقر انصاری By: مرید باقر انصاری, Karachiنہیں ہے راج کی خواہش سکندروں کی طرح
ہمیں نواز دے مالک قلندروں کی طرح
جو آج سہمے ہوئے چپ سے رہتے ہیں گمنام
وہ پھیل جائیں گے اک دن سمندروں کی طرح
اگر وہ چاہیں تو دنیا پلٹ کے رکھ دیں گے
نظر جو آئیں بظاہر گدا گروں کی طرح
فقیر لوگ نہیں تاج و تخت کے مہتاج
زمانہ جن کو جُھکے ہے سکندروں کی طرح
کہ سجدہ ریز ہو جن میں ہر ایک نوعِ بشر
ہوں مسجدیں تو کلیساؤں مندروں کی طرح
نہ جانے کس کا وہ بھگوان جا کے بن بیٹھا
جو ہم نے انس تراشا تھا پتھروں کی طرح
تو کیا ہوا ہے کہ تنہا ہیں آج شہر میں ہم
کبھی ہمارے بھی اپنے تھے لشکروں کی طرح
کبھی سرابوں میں خیمے کبھی پہاڑوں پہ گھر
تمام عمر رہا میں مسافروں کی طرح
ہے میرا حال ترے بعد دیکھنے والا
وہ آندھیوں کے ستاۓ بُجھے گھروں کی طرح
مرے نشان یُوں تاریخ میں ملیں گے کبھی
کہ ایک شخص تھا اُجڑا تھا کھنڈروں کی طرح
اکڑ کے چلنے کی عادت تُو بُھول جا باقرؔ
فقیری ذہن بنا لے سخنوروں کی طرح






