نہیں ہے راج کی خواہش سکندروں کی طرح
ہمیں نواز دے مالک قلندروں کی طرح
جو آج سہمے ہوئے چپ سے رہتے ہیں گمنام
وہ پھیل جائیں گے اک دن سمندروں کی طرح
اگر وہ چاہیں تو دنیا پلٹ کے رکھ دیں گے
نظر جو آئیں بظاہر گدا گروں کی طرح
فقیر لوگ نہیں تاج و تخت کے مہتاج
زمانہ جن کو جُھکے ہے سکندروں کی طرح
کہ سجدہ ریز ہو جن میں ہر ایک نوعِ بشر
ہوں مسجدیں تو کلیساؤں مندروں کی طرح
نہ جانے کس کا وہ بھگوان جا کے بن بیٹھا
جو ہم نے انس تراشا تھا پتھروں کی طرح
تو کیا ہوا ہے کہ تنہا ہیں آج شہر میں ہم
کبھی ہمارے بھی اپنے تھے لشکروں کی طرح
کبھی سرابوں میں خیمے کبھی پہاڑوں پہ گھر
تمام عمر رہا میں مسافروں کی طرح
ہے میرا حال ترے بعد دیکھنے والا
وہ آندھیوں کے ستاۓ بُجھے گھروں کی طرح
مرے نشان یُوں تاریخ میں ملیں گے کبھی
کہ ایک شخص تھا اُجڑا تھا کھنڈروں کی طرح
اکڑ کے چلنے کی عادت تُو بُھول جا باقرؔ
فقیری ذہن بنا لے سخنوروں کی طرح