نیت_یار کھل گئی آخر
کوئی صورت ہی دھل گئی آخر
ایسا لگتا تھا مر ہی جائیں گے
پر طبیعت سنبھل گئی آخر
ایک چنگاری عشق کی بھڑکی
آگ یکدم ہی جل گئی آخر
دل کی بستی ہے پاؤں کے نیچے
راہ نظروں کو مل گئی آخر
کھیل قدرت نے جب رچایا تو
ساری شوخی نکل گئی آخر
پیچ در پیچ راکھ باقی ہے
ویسے رسی تو جل گئی آخر
روز کرتا ہوں پاپ سے توبہ
روز فطرت مچل گئی آخر
آنچ یادوں کی اب تو کم کردے
دیکھ ہنڈیا ابل گئی آخر
ماں نے عمران کیا دعا مانگی
ہر مصیبت ہی ٹل گئی آخر