ویران سڑک پر ملی تھی مجھ کو
کل نیلی آنکھوں والی لڑکی
بال سنہری الجھے الجھے
گہرا کاجل بھیگا بھیگا
ہونٹوں پہ اک چپ کی مہر تھی
جانے کونسا دکھ تھا
من میں جس کو چھپاۓ وہ سندر لڑکی
دنیا سے یوں بھاگ رہی تھی
ہاتھ پکڑ کہ میں نے اسکو پاس بھٹایا
اور یہ پوچھا
اے نیلی آنکھوں والی سندر لڑکی
آخر من میں کیا ہے چھپایا ؟
کیا ہے خود کو روگ لگایا؟
پائل تیری کھوئی کھوئی
ہاتھ کا کنگن سویا سویا
رنگت بھی تو ذرد پڑی ہے
کانوں میں بالا بھی نہیں
ہے
بال سنہری کیوں بکھرے ہیں یوں؟
کیوں کاجل آنکھوں کا بہایا؟
آخر کیا ہے روگ لگایا؟
شانے پہ میرے
سر کو رکھ کہ
اس لمحے وہ نیلی آنکھیں
پھر سے ٹوٹ کہ ایسا برسیں
مجھ کو یہ گمان ہوا کہ
جیسے ہوں ساون کے بادل
یا شاید پھر
ندی کے جھرنے
اس کو روتا دیکھ یوں انجم
اپنے من میں سوچ رہی تھی
واللہ
یہ نیلی آنکھوں والی سندر لڑکی
کسی کے عشق میں ڈوبی ہوگی،
تڑپی ہوگی،
آخر ٹوٹ کے بکھری ہوگی،
گر ایسا نہیں تو
پھر یہ آنکھیں
ایسے کیسے برسی ہونگی؟؟؟
آخر اس نے چپ کو توڑا
بیچ ہچکیوں کے
فقط یہ بولا
آنکھوں کی دہلیز پہ میں نے
کچھ سندر خواب سجاۓ تھے
باغ میں جھولے جھولے اور
گیت وفا کے گاۓ تھے
اس سے آگےاور کیا بولوں
تم تو خود سب جان گئ ہو
آخر یہ انجام ہوا ہے
ہاں
پیار کا یہ انجام ہوا ہے
اور یہ سن کہ
آنکھ میں مری اک عکس سا ابھرا
من میں بھی اک شور اٹھا تھا
اندر کوئی چیخ رہا تھا
"'ہاں دنیا کا دستور یہی ہے
پیار پیار تو ہر دل کرتا
پیار کی مالا ہر دل جپتا
مگر
پیار کا تو انجام یہی ہے"'
ہاں
"پیار کا تو انجام یہی ہے"