گہری نیند بھی سو نہیں پائے
دل کے داغ بھی دھو نہیں پائے
کیا اردے ہیں کیسے وعدے ہیں
جو کبھی پورے ہو نہیں پائے
جاگتے جاگتے گزر گئیں تمام شبیں
ہم کسی شام سو نہیں پائے
کھلکھلا کر کبھی ہنسے بھی نہی
اور کھل کر بھی رو نہیں پائے
روح کے داغ دھونا چاہے بہت
وائے قسمت کے دھو نہیں پائے
آپ سے کس طرح نباہ کرتے
وہ جو اپنے بھی ہو نہیں پائے
حال میں اپنے سدا مست رہے
ہم کہیں اور کھو نہیں پائے
عظمٰی الفت کا بیج چاہ کر بھی
ہم کسی طور بو نہیں پائے