نیند ہماری خواب تمھارے ہیں
یہ کیسے کھلے گلاب سارے ہیں
رتجگی سی اپنی راتیں ہیں
آنکھوں دیکھے عذاب سارے ہیں
نئے آہو، نئے صحرا، نئے خوابوں کے امکان
خوابیدہ سی نگاہیں، ماہتاب، ستارے ہیں
راہ وصل میں بھٹکتی ہیں آرزوئیں
نگار شام بے منزل، سراب سارے ہیں
احساس تعبیر میں وصل تنہائی جاوید
یہ کیسے خواب استعارے ہیں