نیۓ سانچے میں ڈھلتی جا رہی ہوں
میں اب کتنی بدلتی جا رہی ہوں
سمندر کی طرح ہے پرُ سکوں وہ
میں ندیا سی مچلتی جا رہی ہوں
نییٔ ٹھوکر ہے جیسے ہر قدم پر
میں گِر گِر کےسنبھلتی جا رہی ہوں
نجانے کب تو میرا ساتھ چھوڑے
اِسی غم میں پگھلتی جا رہی ہوں
یہ کیسی آگ ہے جِس کی تپش میں
میں صبح و شام جلتی جا رہی ہوں
جو صبر و ضبط کی حد تھی مقرر
میں اس حد سے نکلتی جا رہی ہوں