Add Poetry

وارث

Poet: By: Adil Nazir, goojrat

کل اس روٹھے روٹھے یار کو دیکھا تو محسوس ہوا
محسن پہ میلے کپڑے اچھے لگتے ہیں

جب سے وہ پردیس گیا ہے شہر کی رونق روٹھ گئی
اب تو اپنے گھر کے بند دریچے اچھے لگتے ہیں

پہلی پہلی محبتوں کا خمار باتوں باتوں میں رات ڈھل گی
اب کے دل تیرے وعدوں پر جیسے بچے کا دل بہل جائے
ہجر کی رات ڈھل گئی وارث اب تو دل سے کہو سنبھل جائے

بچھڑ کے مجھ سے کبھی تو نے یہ بھی سوچا ہے
ادھورا چاند بھی کتنا اداس لگتا ہے

یہ رکھ رکھاؤ محبت سکھا گئی اس کو
وہ بھی روٹھ کر بھی مسکرا کے ملتا ہے

کچھ اس قدر بھی تو آساں نہیں عزق تیرا انجلی
یہ زہر دل میں بھی اتر کر ہی راس آتا ہے وارث

میں تجھ کو پا کے بھی کھویا ہوا رہتا ہو انجلی
کبھی کبھی تو مجھے تو نے ٹھیک سمجھا ہے وارث

مجھے جبر ہے کیا ہے جدائیوں کا عذاب انجلی
وارث کہ میں نے شاخ سے گل کو بچھڑتے دیکھا ہے

میں مسکرا بھی پڑا ہوں تو کیوں خفا ہیں یہ لوگ انجلی
کہ پھول ٹوٹی ہوئی قبر پر بھی کھلتا ہے وارث

صبح کی دھوپ اتر آئی میری بالوں میں
شب ہے بڑی مشکل سے ڈ ھلی ہے اب کے انجلی

وارث کیا کہوں کتنے بہانوں سے بھلایا اسے
انجلی یہ قیامت ٹلی ہے اب کے

وارث ہم سے مت پوچھ راستے گھر کے
انجلی ہم تو مسافر ہیں زندگی بھر کے وارث

Rate it:
Views: 789
22 May, 2008
Related Tags on Sad Poetry
Load More Tags
More Sad Poetry
محبت تجھ سے وابستہ رہے گی جاوداں میری محبت تجھ سے وابستہ رہے گی جاوداں میری
ترے قصہ کے پیچھے پیچھے ہوگی داستاں میری
کریں گی دیکھیے الفت میں کیا رسوائیاں میری
جہاں سنئے بس ان کا تذکرہ اور داستاں میری
قیامت میں بھی جھوٹی ہوگی ثابت داستاں میری
کہے گا اک جہاں ان کی وہاں یا مہرباں میری
بہت کچھ قوت گفتار ہے اے مہرباں میری
مگر ہاں سامنے ان کے نہیں کھلتی زباں میری
قیامت کا تو دن ہے ایک اور قصہ ہے طولانی
بھلا دن بھر میں کیوں کر ختم ہوگی داستاں میری
وہ رسوائے محبت ہوں رہوں گا یاد مدت تک
کہانی کی طرح ہر گھر میں ہوگی داستاں میری
سناؤں اس گل خوبی کو کیوں میں قلب کی حالت
بھلا نازک دماغی سننے دے گی داستاں میری
کہوں کچھ تو شکایت ہے رہوں چپ تو مصیبت ہے
بیاں کیوں کر کروں کچھ گو مگو ہے داستاں میری
اکیلا منزل ملک عدم میں زیر مرقد ہوں
وہ یوسف ہوں نہیں کچھ چاہ کرتا کارواں میری
یہ دل میں ہے جو کچھ کہنا ہے دامن تھام کر کہہ دوں
وہ میرے ہاتھ پکڑیں گے کہ پکڑیں گے زباں میری
پھنسایا دام میں صیاد مجھ کو خوش بیانی نے
عبث پر تو نے کترے قطع کرنی تھی زباں میری
نہ چھوٹا سلسلہ وحشت کا جب تک جاں رہی تن میں
وہ مجنوں ہوں کہ تختے پر ہی اتریں بیڑیاں میری
مشبک میں بھی تیر آہ سے سینے کو کر دوں گا
لحد جب تک بنائے گا زمیں پر آسماں میری
محبت بت کدہ کی دل میں ہے اور قصد کعبہ کا
اب آگے دیکھیے تقدیر لے جائے جہاں میری
بھلا واں کون پوچھے گا مجھے کچھ خیر ہے زاہد
میں ہوں کس میں کہ پرسش ہوگی روز امتحاں میری
تصدق آپ کے انصاف کے میں تو نہ مانوں گا
کہ بوسے غیر کے حصے کے ہوں اور گالیاں میری
مصنف خوب کرتا ہے بیاں تصنیف کو اپنی
کسی دن وہ سنیں میری زباں سے داستاں میری
فشار قبر نے پہلو دبائے خوب ہی میرے
نیا مہماں تھا خاطر کیوں نہ کرتا میزباں میری
قفس میں پھڑپھڑانے پر تو پر صیاد نے کترے
جو منہ سے بولتا کچھ کاٹ ہی لیتا زباں میری
وہ اس صورت سے بعد مرگ بھی مجھ کو جلاتی ہیں
دکھا دی شمع کو تصویر ہاتھ آئی جہاں میری
ہر اک جلسے میں اب تو حضرت واعظ یہ کہتے ہیں
اگر ہو بند مے خانہ تو چل جائے دکاں میری
طریقہ ہے یہی کیا اے لحد مہماں کی خاطر کا
میں خود بے دم ہوں تڑواتی ہے ناحق ہڈیاں میری
پسند آیا نہیں یہ روز کا جھگڑا رقیبوں کا
میں دل سے باز آیا جان چھوڑو مہرباں میری
ہزاروں ہجر میں جور و ستم تیرے اٹھائے ہیں
جو ہمت ہو سنبھال اک آہ تو بھی آسماں میری
یہ کچھ اپنی زباں میں کہتی ہیں جب پاؤں گھستا ہوں
خدا کی شان مجھ سے بولتی ہیں بیڑیاں میری
بنایا عشق نے یوسف کو گرد کارواں آخر
کہ پیچھے دل گیا پہلے گئی تاب و تواں میری
پڑھی اے بزمؔ جب میں نے غزل کٹ کٹ گئے حاسد
رہی ہر معرکہ میں تیز شمشیر زباں میری
 
ناصر
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets