وارث
Poet: By: Adil Nazir, goojratکل اس روٹھے روٹھے یار کو دیکھا تو محسوس ہوا
محسن پہ میلے کپڑے اچھے لگتے ہیں
جب سے وہ پردیس گیا ہے شہر کی رونق روٹھ گئی
اب تو اپنے گھر کے بند دریچے اچھے لگتے ہیں
پہلی پہلی محبتوں کا خمار باتوں باتوں میں رات ڈھل گی
اب کے دل تیرے وعدوں پر جیسے بچے کا دل بہل جائے
ہجر کی رات ڈھل گئی وارث اب تو دل سے کہو سنبھل جائے
بچھڑ کے مجھ سے کبھی تو نے یہ بھی سوچا ہے
ادھورا چاند بھی کتنا اداس لگتا ہے
یہ رکھ رکھاؤ محبت سکھا گئی اس کو
وہ بھی روٹھ کر بھی مسکرا کے ملتا ہے
کچھ اس قدر بھی تو آساں نہیں عزق تیرا انجلی
یہ زہر دل میں بھی اتر کر ہی راس آتا ہے وارث
میں تجھ کو پا کے بھی کھویا ہوا رہتا ہو انجلی
کبھی کبھی تو مجھے تو نے ٹھیک سمجھا ہے وارث
مجھے جبر ہے کیا ہے جدائیوں کا عذاب انجلی
وارث کہ میں نے شاخ سے گل کو بچھڑتے دیکھا ہے
میں مسکرا بھی پڑا ہوں تو کیوں خفا ہیں یہ لوگ انجلی
کہ پھول ٹوٹی ہوئی قبر پر بھی کھلتا ہے وارث
صبح کی دھوپ اتر آئی میری بالوں میں
شب ہے بڑی مشکل سے ڈ ھلی ہے اب کے انجلی
وارث کیا کہوں کتنے بہانوں سے بھلایا اسے
انجلی یہ قیامت ٹلی ہے اب کے
وارث ہم سے مت پوچھ راستے گھر کے
انجلی ہم تو مسافر ہیں زندگی بھر کے وارث
اب کہ کوئی حسرت بھی نہیں رکھتے
آنکھ کھلی اور ٹوٹ گئے خواب ہمارے
اب کوئی خواب آنکھوں میں نہیں رکھتے
خواب دیکھیں بھی تو تعبیر الٹ دیتے ہیں
ہم کہ اپنے خوابوں پہ بھروسہ نہیں رکھتے
گزارا ہے دشت و بیاباں سے قسمت نے ہمیں
اب ہم کھو جانے کا کوئی خوف نہیں رکھتے
آباد رہنے کی دعا ہے میری سارے شہر کو
اب کہ ہم شہر کو آنے کا ارادہ نہیں رکھتے
گمان ہوں یقین ہوں نہیں میں نہیں ہوں؟
زیادہ نہ پرے ہوں تیرے قریں ہوں
رگوں میں جنوں ہوں یہیں ہی کہیں ہوں
کیوں تو پھرے ہے جہانوں بنوں میں
نگاہ قلب سے دیکھ تو میں یہیں ہوں
کیوں ہے پریشاں کیوں غمگیں ہے تو
مرا تو نہیں ہوں تیرے ہم نشیں ہوں
تجھے دیکھنے کا جنوں ہے فسوں ہے
ملے تو کہیں یہ پلکیں بھی بچھیں ہوں
تیرا غم بڑا غم ہے لیکن جہاں میں
بڑے غم ہوں اور ستم ہم نہیں ہوں
پیارے پریت ہے نہیں کھیل کوئی
نہیں عجب حافظ سبھی دن حسیں ہوں
جانے والے ہمیں نا رونے کی ،
ہدایت کر کے جا ،
۔
چلے ہو آپ بہت دور ہم سے ،
معاف کرنا ہوئا ہو کوئی قسور ہم سے ،
آج تو نرم لہجا نہایت کر کے جا ،
۔
درد سے تنگ آکے ہم مرنے چلیں گے ،
سوچ لو کتنا تیرے بن ہم جلیں گے ،
ہم سے کوئی تو شکایت کر کے جا ،
۔
لفظ مطلوبہ نام نہیں لے سکتے ،
ان ٹوٹے لفظوں کو روایت کر کے جا ،
۔
ہم نے جو لکھا بیکار لکھا ، مانتے ہیں ،
ہمارا لکھا ہوئا ۔ ایم ، سیاعت کر کے جا ،
۔
بس ایک عنایت کر کے جا ،
جانے والے ہمیں نا رونے کی ،
ہدایت کر کے جا ،
ہم بے نیاز ہو گئے دنیا کی بات سے
خاموش! گفتگو کا بھرم ٹوٹ جائے گا
اے دل! مچلنا چھوڑ دے اب التفات سے
تکمیل کی خلش بھی عجب کوزہ گری ہے
اکتا گیا ہوں میں یہاں اہل ثبات سے
اپنی انا کے دائروں میں قید سرپھرے
ملتی نہیں نجات کسی واردات سے
یہ دل بھی اب سوال سے ڈرنے لگا وسیم
تھک سا گیا ہے یہ بھی سبھی ممکنات سے
جسم گَلتا مرا ہائے فراق کیا ہے
روئے کیوں ہم جدائی میں وجہ ہے کیا
ہے رنگ ڈھلتا مرا ہائے فراق کیا ہے
ہوں گم سوچو میں، گم تنہائیوں میں، میں
ہے دل کڑتا مرا ہائے فراق کیا ہے
بے چاہے بھی اسے چاہوں عجب ہوں میں
نہ جی رکتا مرا ہائے فراق کیا ہے
مٹے ہے خاکؔ طیبؔ چاہ میں اس کی
نہ دل مڑتا مرا ہائے فراق کیا ہے






