وجہ بےوجہ ہی وہ گھبرانے لگے ہیں
محبت سے وہ خوف کھانے لگے ہیں
مجھ سے کئے تھے جو وعدے سبھی
وہ اب اَن کو خود ہی ستانے لگے ہیں
وہ دعوٰی جو اپنے ہی دل سے کیا تھا
اَسے خود بخود بھول جانے لگے ہیں
وہ جن حسرتوں سے خائف تھے پہلے
انھی حسرتوں کو جگانے لگے ہیں
سَنا ہے کہ اَن کو بھی راتوں میں اکثر
میرے خواب آ کے جگانے لگے ہیں
بہت پاس ہو کے بھی آنمے میں اَن کو
وہ کہتے ہیں اَن کو زمانے لگے ہیں
چلو جاؤ عظمٰی ہمیں نہ ستاؤ
جو ہم چل دیئے تو بَلانے لگے ہیں