وسعتِ شوق بہت ، گرمیٗ گفتار بہت
جسم جامد ہے مگر ذہن کی رفتار بہت
میں کہ اس عہد کا مجنوں بھی ہوں فرہاد بھی ہوں
تہمتِ عشق کے مجھ پر بھی ہیں انبار بہت
اب کہ یہ میرے براہین سے ٹھنڈی ہو گی
عہدِ ماضی میں جو بھڑکائی گئی نار بہت
نہ ہی فرعون نہ ہامان نہ نمرود ہے آج
لے کے آتے ہیں نئے نام یہ کردار بہت
میں کہ وہ پیڑ ہوں یارو، کہ گریں گے بے حد
جب کوئی شاخ ہلاؤ گے تو اثمار بہت
میں نے جب قیس کی نظروں سے اسے دیکھا تو
مجھ کو لیلیٰ میں ملے حسن کے آثار بہت
زیست اپنی نہ مکمل ہوئی غزلوں کی طرح
یوں تو دن رات میں کہتا رہا اشعار بہت
زیست کی ناؤ جو گرداب میں آتی ہے مرادؔ
عقل و دانش کے ابھر آتے ہیں کردار بہت