وسعتِ صحرا کے آگے آسماں چھوٹا لگا
دھوپ ایسی تھی کہ سر کو سائباں چھوٹا لگا
لوگ خوش فہمی کے پنجوں پر کھڑے تھے فطرتاً
اور یوں ! قد میرا اُن کے درمیاں چھوٹا لگا
یاس‘ محرومی‘ محبت‘ کرب‘ خوش فہمی‘ انا
اتنے ساماں تھے‘ مرا تنہا مکاں چھوٹا لگا
جی رہا ہے وعدۂ فردا پہ تیرے اے خدا
ورنہ اس بندے کو تیرا یہ جہاں چھوٹا لگا
ایک اک لمحے کا جب مانگا گیا مجھ سے حساب
جانے کیوں ذہنِ شہنشاہِ زماں چھوٹا لگا
دور سے قطرہ بھی اک دریا نظر آیا مجھے
قربتوں کی زد میں بحرِ بیکراں چھوٹا لگا