وصل میں بھی رہا لطف

Poet: UA By: UA, Lahore

ہم کو تحفہ ملا جن سے شب تنہائی کا
ہے یقیں دل کو بہت ان کی پارسائی کا

کوچہء یار سے بھی نظریں جھکا کر چلنا
کتنا احساس ہے ان کو تیری رسوائی کا

اپنی چاہت کا حق ادا نہ کر سکے آخر
شکوہء سنج ہوئے اپنی کج ادائی کا

اپنے پیاروں کا گلہ غیروں سے
کیا یہی طور ہے دنیا میں آشنائی کا

پاس رہتے ہوئے بھی دور رہے
وصل میں بھی رہا لطف و کرم تنہائی کا

نفس نے نفس کی شہرت کو تار تار کیا
نفس ہی رکھ نہ سکا پاس پارسائی کا

غیر تو غیر ہیں یاروں کا یہ انداز رہا
ہم کو الزام دیا برملا ہرجائی کا

Rate it:
Views: 575
17 Nov, 2008