ہم کو تحفہ ملا جن سے شب تنہائی کا
ہے یقیں دل کو بہت ان کی پارسائی کا
کوچہء یار سے بھی نظریں جھکا کر چلنا
کتنا احساس ہے ان کو تیری رسوائی کا
اپنی چاہت کا حق ادا نہ کر سکے آخر
شکوہء سنج ہوئے اپنی کج ادائی کا
اپنے پیاروں کا گلہ غیروں سے
کیا یہی طور ہے دنیا میں آشنائی کا
پاس رہتے ہوئے بھی دور رہے
وصل میں بھی رہا لطف و کرم تنہائی کا
نفس نے نفس کی شہرت کو تار تار کیا
نفس ہی رکھ نہ سکا پاس پارسائی کا
غیر تو غیر ہیں یاروں کا یہ انداز رہا
ہم کو الزام دیا برملا ہرجائی کا