وصل کا امکان باقی ہے
Poet: نعمان صدیقی By: Noman Baqi Siddiqi, Karachiکبھی منظر نہیں دیکھا
مرے اندر نہیں دیکھا
لو اب کھل کر بتا ڈالا
تمہیں سب کچھ سنا ڈالا
تمہارے لوٹ جا نے کا
بہت سامان باقی ہے
ابھی امکان باقی ہے
کی زمین میں اسی
کا جواب
اب سن لو ذرا میری بھی
تم نے تو سُنا ڈالا
مُجھے تو تم نے جیتے جی
دیوار میں چُنا ڈالا
تمہاری اس مسکان پر تو
جان ہم چھڑکتے ہیں
رگیں تو پھڑکتی ہیں
خود ہم بھی تو پھڑکتے ہیں
جو حال ہمارا ہوتا ہے
دھمال ہمارا ہوتا ہے
کئ اس میں لُڑکتے ہیں
سب کے دل دھڑکتے ہیں
جو بھی تم جیسے بھی ہو
اب تم بس ہمارے ہو
غم کے جس کنارے ہو
ہمارے تم سہارے ہو
امکان لوٹ جانے کا
دل کے ٹوٹ جانے کا
تمہارے روٹھ جانے کا
ساتھ چھوٹ جانے کا
ممکن نہیں بس میں نہیں
یہ میری دسترس میں نہیں
نہیں امکاں لوٹ جانے کا
وقت ہے یہ لوٹ آنے کا
کشتیاں اب جلا دی ہیں
عشق کا امتحان باقی ہے
وصل کا امکان باقی ہے
میرا نام نعمان باقی ہے






