کبھی منظر نہیں دیکھا
مرے اندر نہیں دیکھا
لو اب کھل کر بتا ڈالا
تمہیں سب کچھ سنا ڈالا
تمہارے لوٹ جا نے کا
بہت سامان باقی ہے
ابھی امکان باقی ہے
کی زمین میں اسی
کا جواب
اب سن لو ذرا میری بھی
تم نے تو سُنا ڈالا
مُجھے تو تم نے جیتے جی
دیوار میں چُنا ڈالا
تمہاری اس مسکان پر تو
جان ہم چھڑکتے ہیں
رگیں تو پھڑکتی ہیں
خود ہم بھی تو پھڑکتے ہیں
جو حال ہمارا ہوتا ہے
دھمال ہمارا ہوتا ہے
کئ اس میں لُڑکتے ہیں
سب کے دل دھڑکتے ہیں
جو بھی تم جیسے بھی ہو
اب تم بس ہمارے ہو
غم کے جس کنارے ہو
ہمارے تم سہارے ہو
امکان لوٹ جانے کا
دل کے ٹوٹ جانے کا
تمہارے روٹھ جانے کا
ساتھ چھوٹ جانے کا
ممکن نہیں بس میں نہیں
یہ میری دسترس میں نہیں
نہیں امکاں لوٹ جانے کا
وقت ہے یہ لوٹ آنے کا
کشتیاں اب جلا دی ہیں
عشق کا امتحان باقی ہے
وصل کا امکان باقی ہے
میرا نام نعمان باقی ہے