وقت کی قید کو لمحہ بھر صداقت ھی سہی
ان چراغوں میں ضیاء ہاں آ ہی جائے گی
برا ہوا غیر کے آگے جو سر جھکانے لگے
سینہ دل سے کہیں پھر وہ صدا آئے گی
میں جو ہوں بھول چکا عہد اپنے آباء کا
وہ جوتھی تیغ رواں لوٹ کے پھر آئے گی
ھمسفر ایک ہی پہلو میں پھر جما ھوں گے
چمن کی ویرانی پھر سے گل اگائے گی
بدن کو آنچ جو آے تو سب پکاریں گے
جھوم کر باد نسیم پھر ادھر آئے گی