وعدے ہوں سچے جلا دیتے ہیں جذبوں کو کبھی
جذبے ہوں سچے ہلا دیتے ہیں رسموں کو کبھی
تھی برستی مجھ پہ ہم رہ تیرے برسوں جو کبھی
ہو میسر مجھ کو وہ برسات، لمحوں میں کبھی
شبِ گل بھی تھی منور، تیرے جلووں سے کبھی
اب کے دکھتی ہی نہیں وہ رات، راتوں میں کبھی
ڈھونڈتا دل ہے مرا اس کو سرابوں میں کہیں
چاشنی تھی جو ترے لہجے میں، صدیوں سے کبھی
آج قاصر ہیں دلائل بھی سمجھنے سے مرے
بات کرتے تھےجو مجھ ہی سے اشاروں میں کبھی
ہے کھڑا وہ غیر کی نگری میں، سرِ دست ابھی
ابتدا جو شخص تھا، سب میرے رشتوں کا کبھی
معتبر بن پھر تے ہیں، اے آسماں تجھ پہ ابھی
رکھ کے چلتے جو قدم تھے، میرے قدموں پہ کبھی
سرِ گلشن رکھ دی ہیں چاہت کی، کچھ شمعیں میں نے
ڈھونڈ لو میری محبت کو،احساسوں میں کبھی
شبِ فرقت، وصل کا مہوش، کیوں ڈستا ہے مجھے
ہجر میں آئے ملن کا گُر ہی خوابوں میں کبھی
اب تو خوابوں کے جزیروں پہ پڑے ہیں بے نشاں
پہنچیں گےہم بھی ڈاہر، شادمانوں میں کبھی