وفا پرست ہوں میں وفا کئے جاتا ہوں
کبھی نہ بے وفا ئی کو خاطر میں لاتا ہوں
ملے کوئی باوفا یہ اپنی آرزو ہے
جو بے وفا ہو قریب اس کے نہ آتا ہوں
وفا شعاری بھی تو کوئی آساں نہیں ہے
کوئی سو لوگوں میں ایک آدھ دکھلاتا ہوں
بڑے ہی افسوس کا یہ ہے مقام یاروں
زباں پہ کچھ تو دلوں میں کچھ ہی رنگ پاتا ہوں
بڑے ادب سے ستمگروں سے ہے گزارش
نظر ہو انجام پر یہ بات پہنچاتا ہوں
گزر بھی جائے گی گھٹا جو غم کی چھائی
کبھی نہ ان گھٹاؤں سے میں تو گھبراتا ہوں
نظر جمے نہ کبھی بھی اپنی اسباب پر
ملے نہ غیبی تائید یہ ہی سمجھاتا ہوں
کسی کے غم سے جو اپنا دل نہ معمورہو
یہی تو اثر مضر ہے تجھ کو بتلاتا ہوں