وفا کا اقرار نہ سہی دوستی کا اظہار تو کیا ہے
وہ میرا نہ ہوا پر اس نے میرا اعتبار تو کیا ہے
میں جو رویا تو میرے اشک سمیٹے اس نے
ہاں میرے غموں کا مداوا بار بار تو کیا ہے
اگرچہ وہ اپنا رفیق سفر نہ بن سکا تو کیا ہوا
مخلص دوستوں سا اس نے پیار تو دیا ہے
اس کے اخلاص کو یہ دل کیسے بھول پائے گا
اس مہرباں نے محبتوں کا پرچار تو کیا ہے
عظمٰی اسے چاہیں بھی تو ہم بھول نہیں سکتے
جس نے سکھی رہنے کے لئے تیار تو کیا ہے