وقت سب کے چہرے پر نقش چھوڑ جاتا ہے
زندگی کی دھارا کو پل میں موڑ جاتا ہے
بات جب وہ کرتا ہے مجھ سے دُور جانے کی
جِسم سے مرے جیسے خوں نچوڑ جاتا ہے
آینۓ کو دیکھا تو آج میں نے سوچا ہے
وقت کِتنی تیزی سے آگے دوڑ جاتا ہے
روز ہی بناتے ہیں ریت کے گھروندے ہم
روز ہی اُنھیں کویٔ توڑ پھوڑ جاتا ہے
جب بھی عہد کرتے ہیں اُس کو بھوُل جانے کا
سلسلہ وہ یادوں کا پھر سے جوڑ جاتا ہے
ہاتھ صرِف آ تی ہے گردِ کارواں عذراؔ
کارواں کِسی کو جب پیچھے چھوڑ جاتا ہے