وقت کی بے شمار گلیاں ہیں
کچھ ہیں تاریک، اور کچھ روشن
وقت اک یاد ہے، کہانی ہے
وقت آنے پہ جو سُنانی ہے
سُکھ کی ڈھیری لگا بھی دیتا ہے
دُکھ کا انبار یہ نگل جائے
وقت آئے، ملے، نکل جائے
وقت پھسلے کبھی سنبھل جائے
اس سے امید سب ہی رکھتے ہیں
وقت اچھا کبھی تو آئے گا
نیند سُکھ کی ملے گی جب اس کو
چین کی بانسُری بجائے گا
وقت یہ کچھ چھپا بھی لیتا ہے
اور کچھ آشکار کرتا ہے
کچھ کو غفلت میں لوٹتا ہے مگر
کچھ کو یہ ہوشیار کرتا ہے
اُٹھ کھڑا ہو یہ ساتھ قسمت کے
ساتھ قسمت کے وقت بھی سوئے
کچھ بھی ہرگز وہ پا نہیں سکتا
ہاتھ میں آیا وقت جو کھوئے
وقت جانے کہاں سے آتا ہے
اور نہ جانے کدھر کو جاتا ہے
ساتھ اس کے جو بہہ نہیں سکتے
کس کنارے اُنہیں لگاتا
بیتنا پل کبھی تو مشکل ہو
اور کبھی زیست جائے لمحوں میں
وقت کا کھیل میں نہیں سمجھا
کوئی سمجھائے بھی تو لفظوں میں
وقت ہے سنگ دل یہ دکھلائے
وقت پڑنے پہ سامنے لائے
سب کے کرموں کے بیج کا پودا
جو بھی بوئے وہ کاٹتا جائے
اس کہانی کا کون ہے راوی
وقت کی ابتدا نہیں معلوم
اور انجام وقت کا کیا ہے
وقت کی انتہا نہیں معلوم