وہ تارے بنے آسماں کے
کھلے پھول باغِ جناح کے
وہ زندہ ، پائندہ رہیں گے
ہمیشہ تابندہ رہیں گے
یہ ذرے جہاں سے کہیں گے
وہ تارے بنے آسماں کے
کھلے پھول باغِ جناح کے
ہوا چھلنی سینہ تو کیا ہے
یہ عزمِ ایمانی بلا ہے
کہے خوں میں ڈوبی قبا ہے
وہ تارے بنے آسماں کے
کھلے پھول باغِ جناح کے
وہ گھر آج لوٹے نہیں ہیں
صحن آج سوتے نہیں
دیواریں یہ کہنے لگی ہیں
وہ تارے بنے آسماں کے
کھلے پھول باغِ جناح کے
یہ بستے لو ماؤں سنبھالو
انہیں کو گلے سے لگا لو
فلک پے نگاہیں تو ڈالو
وہ تارے بنے آسماں کے
کھلے پھول باغِ جناح کے
وہ گھر لوٹ کے اب نہ آئیں
نہ آکے تمھیں کچھ بتائیں
مگر کہتی ہیں یہ ہوائیں
وہ تارے بنے آسماں کے
کھلے پھول باغِ جناح کے
تصور ہی کافی ہے ان کا
بہشتوں میں بستر ہے ان کا
شہادت مقدر تھا ان کا
وہ تارے بنے آسماں کے
کھلے پھول باغِ جناح کے
نہیں رائیگاں خون ان کا
نگارِ چمن خون ان کا
بہارِ وطن خون ان کا
وہ تارے بنے آسماں کے
کھلے پھول باغِ جناح کے
صبا ان کی بہنوں سے کہدو
وہ سر پے تہارے ہیں کہدو
وہ رب کے پیارے ہیں کہدو
وہ تارے بنے آسماں کے
کھلے پھول باغِ جناح کے
شہادت سے بہتر نہ نعمت
شہادت ہمیشہ سلامت
شہادت ہی جانِ شہادت
وہ تارے بنے آسماں کے
کھلے پھول باغِ جناح کے
وہ پَل سے زمانہ بنے ہیں
فخر کا فسانہ بنے ہیں
شہیدِ یگانہ بنے ہیں
وہ تارے بنے آسماں کے
کھلے پھول باغِ جناح کے
انہیں مرتضائیؔ بلاؤ
وفا کا ترانہ سناؤ
چراغِ محبت جلاؤ
وہ تارے بنے آسماں کے
کھلے پھول باغِ جناح کے
(سانحہ پشاور ۱۶دسمبر ۲۰۱۴ء کے ننھے شہیدوں کے نام)