وہ تارے بنے آسماں کے
Poet: Prof Niamat Ali Murtazai By: Prof Niamat Ali Murtazai,وہ تارے بنے آسماں کے
کھلے پھول باغِ جناح کے
وہ زندہ ، پائندہ رہیں گے
ہمیشہ تابندہ رہیں گے
یہ ذرے جہاں سے کہیں گے
وہ تارے بنے آسماں کے
کھلے پھول باغِ جناح کے
ہوا چھلنی سینہ تو کیا ہے
یہ عزمِ ایمانی بلا ہے
کہے خوں میں ڈوبی قبا ہے
وہ تارے بنے آسماں کے
کھلے پھول باغِ جناح کے
وہ گھر آج لوٹے نہیں ہیں
صحن آج سوتے نہیں
دیواریں یہ کہنے لگی ہیں
وہ تارے بنے آسماں کے
کھلے پھول باغِ جناح کے
یہ بستے لو ماؤں سنبھالو
انہیں کو گلے سے لگا لو
فلک پے نگاہیں تو ڈالو
وہ تارے بنے آسماں کے
کھلے پھول باغِ جناح کے
وہ گھر لوٹ کے اب نہ آئیں
نہ آکے تمھیں کچھ بتائیں
مگر کہتی ہیں یہ ہوائیں
وہ تارے بنے آسماں کے
کھلے پھول باغِ جناح کے
تصور ہی کافی ہے ان کا
بہشتوں میں بستر ہے ان کا
شہادت مقدر تھا ان کا
وہ تارے بنے آسماں کے
کھلے پھول باغِ جناح کے
نہیں رائیگاں خون ان کا
نگارِ چمن خون ان کا
بہارِ وطن خون ان کا
وہ تارے بنے آسماں کے
کھلے پھول باغِ جناح کے
صبا ان کی بہنوں سے کہدو
وہ سر پے تہارے ہیں کہدو
وہ رب کے پیارے ہیں کہدو
وہ تارے بنے آسماں کے
کھلے پھول باغِ جناح کے
شہادت سے بہتر نہ نعمت
شہادت ہمیشہ سلامت
شہادت ہی جانِ شہادت
وہ تارے بنے آسماں کے
کھلے پھول باغِ جناح کے
وہ پَل سے زمانہ بنے ہیں
فخر کا فسانہ بنے ہیں
شہیدِ یگانہ بنے ہیں
وہ تارے بنے آسماں کے
کھلے پھول باغِ جناح کے
انہیں مرتضائیؔ بلاؤ
وفا کا ترانہ سناؤ
چراغِ محبت جلاؤ
وہ تارے بنے آسماں کے
کھلے پھول باغِ جناح کے
(سانحہ پشاور ۱۶دسمبر ۲۰۱۴ء کے ننھے شہیدوں کے نام)
پر یہ امکان بھی اب زخمِ گُماں بن بیٹھا
کچھ نظر آئے تو لگتا ہے وہی تُو شاید
کچھ نہ ہو سامنے، تو دردِ جہاں بن بیٹھا
عشق؟ ہاں، عشق بھی اک کھیل سا لگتا ہے مجھے
جس میں ہر وار پہ دل ہی بے زباں بن بیٹھا
میں نے خود کو تری چاہت میں مٹا کر دیکھا
اب وہ خالی سا وجودِ ناتواں بن بیٹھا
کون سنتا ہے یہاں شورِ سکوتِ دل کو
میں ہی اک شمع تھا، خود خاکِ دھواں بن بیٹھا
میں نے مانا تھا کہ احساس ہی پوجا ٹھہرے
پر یہ احساس بھی اب ترکِ زباں بن بیٹھا
تُو اگر خواب میں آئے تو اجالہ پھیلاؤ
ورنہ خوابوں کا ہر اک زخمِ نہاں بن بیٹھا
ایک چہرہ تھا مرے دل کی دعا کے اندر
اب وہی چہرہ مرا دشتِ فغاں بن بیٹھا
کبھی لگتا ہے کہ میں خود سے جدا ہو جاؤں
اور کبھی خود ہی مرا سائۂ جاں بن بیٹھا
میں نے سوچا تھا تری یاد سے جا پاؤں کبھی
پر وہی یاد مرا عینِ اماں بن بیٹھا
اسدؔ اب یاد بھی آتی ہے تو جلتا ہوں میں
جیسے ماضی کوئی خنجر کی زباں بن بیٹھا
ہٹا دے تیرگی تنویر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں تھوڑی دیر میں اک جرم کرنے والا ہوں
تو ایسا کر مری تعزیر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں کتنے روز سے خط کی مہک کو ڈھونڈتا ہوں
سو جھوٹ موٹ کی تحریر میرے ہاتھ پہ رکھ
بہت سے لوگوں کے حق تُو دبا کے بیٹھا ہے
مشقتوں کا صلہ مِیر! میرے ہاتھ پہ رکھ
نہیں سدھرنا تو پھر ساری کوششیں بیکار
تو چاہے جتنی بھی تفسِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تو میرا دوست ہے شعروں کو میرے دیکھ ذرا
جو ہو سکے ہے تو تاثیر میرے ہاتھ پہ رکھ
مرا وجود تو یوں بھی ہے تیرے ایماء پر
مجھے تو ڈال کے زنجیر میرے ہاتھ پہ رکھ
معاملات ترے ساتھ طے کروں گا میں
مگر تُو پہلے تو کشمیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تجھے بھی ہو مری بے کیفیوں کا اندازہ
کبھی تو دل کو ذرا چِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
کہانیاں نہ رہیں اب، نہ رنگ آمیزی
محبتوں کی اساطیر میرے ہاتھ پہ رکھ
رشیدؔ اس کے عوض جھونپڑی نہ چھوڑوں گا
بھلے تو ساری ہی جاگیر میرے ہاتھ پہ رکھ
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں






