وہ جب بھی میراخط پڑھتی ہو گی
تصور میں مجھ سےلڑتی ہو گی
مارے شرم کےذکر نہ کرتی ہو گی
اکیلےمیں اس خط کو چومتی ہو گی
کسی کام اس کا جی نہ لگتا ہو گا
ہربات اس کےذہن میں گھومتی ہو گی
سہیلیاں پوچھتی ہوں گی خط کس کاہے
جواب میں وہ کچھ نہ بولتی ہو گی
آہینےمیں جب اپنا حسن دیکھتی ہو گی
دانتوں میں دوپٹہ دباکرشرماتی ہو گی
جیسےمیں اسےکسی پل نہیں بھولتا
اسی طرح اسےمیری یاد آتی ہو گی
مفت میں بیچاری کی ڈائیٹ ہوتی ہو گی
جب میری جدائی میں کچھ نہ کھاتی ہو گی